CategoriesUncategorized

لاپتہ لیڈیز

جانے ہم عورتیں کتنے خواب دیکھتی ہیں ، نجانے ہم میں سے کتنیوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے اندر کتنے گُن ہیں
دیکھا جاۓ تو مجھے اس ایک مووی میں چار عورتیں چار کہانیاں نظر آئیں۔ اور ان چار عورتوں میں معاشرے کی ساری عورتیں نظر آئیں۔
پہلی عورت دیپک کی ماں ہے جو من پسند کھانے بھی بھول چکی ہے۔۔ جو سوچتی ہے کہ جانے کبھی اس کو کھانے میں کیا پسند رہا تھا۔۔ اب تو بس وہ وہی بناتی ہے جو اس کا شوہر اور ساس کھالیں۔۔ اس کی پسند۔۔؟ جانے کب پیچھے رہ گئی۔۔ ہم میں سے کتنی ہی عورتیں ایسی ہیں جنہوں نے اپنا من مارنا سیکھا ہے نا۔۔ ہم سنتے ہیں نا کہ “میرے میکے میں یہ بہت بنتا تھا لیکن سسرال میں نہیں بنتا۔” پتہ نہیں کیوں کچھ سسرال گھر نہیں بن پاتے !! وہ سسرال ہی رہتے ہیں جہاں آنے والی عورت روز اپنے اندر کی خواہشات، اپنی پسند کا گلا گھونٹتی ملتی ہیں۔
پھول ایک ایسی عورت ہے جس کی شادی کو صرف دو دن ہوۓ ہیں لیکن اسے اس دو دن پہلے ملے اجنبی انسان پر پورا بھروسہ ہے۔۔ دنیا اسے موقع دیتی ہے اپنی پہچان بنانے کا۔۔ وہ چاہتی تو وہیں ٹرین اسٹیشن پر اپنے کھانے کا چھوٹا ہی سہی لیکن کاروبار کرلیتی۔۔ پر وہ منتظر رہی اپنے شوہر کی۔۔ کیوں؟ کیوں کہ اسے اپنے شوہر کی چھاؤں میں سکون، تحفظ، اطمینان اور مسکان ملی تھی۔۔ منجو مائی حالات کی ستائی عورت ہے، اس نے پھول کو اپنے شوہر سے بدظن کرنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن پھول کا یقین ایک پل کو بھی نہیں ڈگمگایا۔۔ وہ اسی زرق برق ساڑھی میں ملبوس اپنے شوہر کی راہ تکتی رہتی ہے۔۔ اسے ڈر ہے کہ اگر کپڑے بدل لیے تو کہیں اسے پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہو۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر اسے دور سے پہچان لے اور وہ جلد اس کے پاس چلی جاۓ۔
تو کریڈٹ جاتا ہے ایسے مردوں کو جو اتنی محبت دیتے ہیں کہ عورت سر تا پا ان کی ہوجاتی ہے۔۔ اگر مرد سے عورت کو محبت، عزت، مان اور سکون مل جاۓ تو وہ بس اسی کی ہو کر رہتی ہے۔
پھر آتی ہے جَیا کی کہانی۔۔ جو اپنے شوہر سے بھاگنا چاہتی ہے۔۔ وہ پڑھنا چاہتی ہے ، کچھ بننا چاہتی ہے۔۔ ایک ذرا سا موقع ملتے ہی وہ پھر سے خواب دیکھنے لگتی ہے۔۔ آگے پڑھنے کا۔۔ کچھ بن کر دکھانے کا۔۔ اس کے پاس دماغ ہے۔ وہ ایک بہترین پلانر ہے اور اس کے اندر لیڈر شپ کوالٹی بھی ہے لیکن قسمت اسے دوبارہ اس کے شوہر کے پاس لے آتی ہے۔۔ وہی شوہر جو اسے ملنے پر ایک زوردار طمانچہ اس کے منہ پر مار دیتاہے۔۔ جسے لگتا ہے کہ جہیز لینا اس کا بنیادی حق ہے۔۔ جسے لگتا ہے کہ وہ مرد ہے اور اس کی عورت اس کے پیر کی جوتی ۔۔جس کے لیے عورت کے خواب، اس کے ارمان کوئی معنی نہیں رکھتے، وہ بس ایک ایسا داماد ہے جس کی پوجا کی جاۓ اور اس کے اشاروں پر ناچا جاۓ۔۔ ایسے مرد سے اگر عورت دور رہنا چاہتی ہے، اپنی عزت نفس کو کچلنے سے بچانا چاہتی ہے ، جس کی پناہوں میں اسے گھٹن اور قید محسوس ہوتی ہے تو عورت کا پورا حق ہے کہ وہ اس مرد سے الگ ہوجاۓ لیکن تب معاشرہ اس پر فیمنسٹ کا ٹھپہ لگادیتا ہے۔۔۔ اپنے لیے آواز اٹھانے سے کیا فیمنسٹ ہوجاتے ہیں؟ یا تھپڑ ، گالیاں کھا لیں لیکن معاشرے سے مثالی بیوی کا سرٹیفیکیٹ لینا بیسٹ آپشن ہے؟؟ لوگ کیا کہیں گے نامی بیماری کی بھی ویکسین آجاۓ تو جانے کتنیوں کا بھلا ہوجاۓ۔
اب آتے ہیں اس مووی کے اسٹار کی طرف۔۔ جس طرح مین آف دا میچ ہوتا ہے نا اس طرح اس مووی کا مین کردار پولیس آفیسر کا رہا۔
دیکھا جاۓ تو شروع سے پولیس والے کا مضبوط کردار، اس کا جیا کے مشکوک رویے پر پہلے ہی دن ٹھٹھکنا ، کیمرے سے فوٹو لینے کی ناکام کوششیں کرتے رہنا اور آخر دم تک کیس کو سمیٹ کر اسے اینڈ پر لے جانا کمال ہے۔ ۔ جَیا کے شوہر کے ساتھ اس نے جو کیا وہ ایک بہت بڑا ٹوئسٹ تھا۔۔ کہانی کا انجام یہ بھی ہوسکتا ہے آخری لمحے تک پتہ نہیں چل سکا تھا۔
پولیس والے کی لیاقت ، دانائی اور ساتھ ساتھ اس کے برجستہ مکالمات نے کہانی میں مزاح کے رنگوں کی آمیزش کردی ہے۔
میری طرف سے اس مووی کو دس میں سے دس ملتے ہیں۔ اس فلم نے ثابت کردیا کہ آئٹم سونگ، عورت کی نمائش، فحش سین کے بنا بھی مووی بنائی جاسکتی ہے اور ایک بہترین کہانی، بہترین اداکاری اور ڈائریکشن فلم کی جان ہوتی ہے ۔

CategoriesUncategorized

Hello world!

Welcome to WordPress. This is your first post. Edit or delete it, then start writing!